URDU ARTICLE: MUSICAL INSTRUMENTS MELODY ECSTASY & WAJD (Sur, Saaz aur Wajd wa Raqs) By Mufti Abdul Qayyum Khan
MUSICAL INSTRUMENTS MELODY ECSTASY & WAJD (Sur, Saaz aur Wajd wa Raqs)
مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
آج کے دور میں قرآن و حدیث سے ناآشنا لوگ اور احکامات کی علت و وجوہ سے نابلد احباب کئی جائز چیزوں پر بھی فوراً ناجائز اور حرام کا حکم لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ میں موجود متعلقہ موضوع کے حوالے سے اثبات پر مبنی احادیث سے بھی عمداً چشم پوشی کرتے ہیں۔ وہ موضوعات جو اکثر ان احباب کے فتوؤں کی زد میں رہتے ہیں اُن میں سے ایک موضوع سُر، ساز، موسیقی اور وجد و رقص بھی ہے۔ کچھ شرائط اور علل کی بناء پر سُر، ساز اور موسیقی جائز ٹھہرتی ہے اور اگر وہ شرائط و وجوہات نہ پائی جائیں تو یہ موسیقی ناجائز ہے۔ محترم مفتی صاحب نے اپنے اس تفصیلی مضمون میں سُر، ساز اور وجد و رقص کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں۔۔۔؟ کیا موسیقی کا سننا جائز ہے۔۔۔؟ بعض اوقات سُر اور ساز سے لوگوں پر جذب کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ وجد و رقص کرنا شروع کردیتے ہیں، اس بارے شریعت کے کیا احکامات ہیں۔۔۔؟ اسی طرح آج کل دف اور موسیقی کے ساتھ نعت بھی پڑھنے کا رواج عام ہے کیا سُر، ساز اور موسیقی کے ساتھ نعت شریف کا پڑھنا جائز ہے۔۔۔؟ اور اس طرح کے کئی سوالات کے جامع جوابات دیئے۔ اس مضمون کے ذریعے اس موضوع اور دیگر کئی موضوعات کے متعلق اصولی و فنی معلومات قرآن و احادیث کی روشنی میں نذرِ قارئین ہے :
اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر اللہ والوں کے عشق و محبت کی باتیں سن کر کچھ لوگوں پر حال طاری ہوجاتا ہے۔۔۔ جذب کی کیفیت آجاتی ہے۔۔۔ یہ کیفیت انسانوں پر ہی نہیں بلکہ حیوانوں اور جمادات و نباتات پربھی ہے۔ اس کیفیت کے طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کائنات کے ذرہ ذرہ میں موجزن ہے۔ یہ محبت جب پورے شباب پر ہو تو جذب و کیف کی کیفیت طاری ہونا انہونی بات نہیں اور شریعت میں کسی بھی جگہ پر جذب و مستی اور کیفیت و حال کے طاری ہونے کی ممانعت نہیں آئی۔ آیئے قرآن و سنت کے حوالے سے سُر، ساز، موسیقی اور وجد و رقص کے بارے احکامات جانتے ہیں۔
قرآن کریم کی روشنی میں
٭ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ وَكُنَّا فَاعِلِينَ.
(الانبياء، 21 : 79)
’’اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد (علیہ السلام) کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے‘‘۔
1۔ قاضی بیضاوی اور امام آلوسی فرماتے ہیں کہ پہاڑ، پتھر، پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ آپ کی موافقت و پیروی میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بولتے، تسبیح و تحمید کرتے۔ (قاضی بیضاوی م791ھ، انوار التنزیل واسرار التاویل، 2۔ 37، طبع مصر) (ابوالفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی م 1270ھ۔ روح المعانی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی طبع ملتان17/76)
2۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
1۔ داؤد علیہ السلام اپنے پروردگار کا ذکر کرتے تو آپ کے ساتھ پہاڑ اور پرندے اپنے رب کا ذکر کرتے۔
2۔ داؤد علیہ السلام تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے جواب دیتے۔
3۔ داؤد علیہ السلام جب ذکر کے بعد خاموش ہوتے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو تسبیح کا حکم دیتے، وہ تسبیح پڑھتے تو آپ کا ذوق و شوق بڑھ جاتا۔
2۔ داؤد علیہ السلام تسبیح کرتے تو پہاڑ اور پرندے جواب دیتے۔
3۔ داؤد علیہ السلام جب ذکر کے بعد خاموش ہوتے تو اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو تسبیح کا حکم دیتے، وہ تسبیح پڑھتے تو آپ کا ذوق و شوق بڑھ جاتا۔
(امام فخرالدین رازی، تفسیر کبیر، 22۔ 199 ) طبع
فرمان باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِO
’’بے شک ہم نے پہاڑوں کو اُن کے زیرِفرمان کر دیا تھا، جو (اُن کے ساتھ مل کر) شام کو اور صبح کو تسبیح کیا کرتے تھے‘‘۔ (ص، 38 : 18)
1۔ اس آیت مبارکہ کے حوالے سے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلی صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے حجم میں زندگی، عقل، قدرۃ اور قوت گویائی پیدا فرمادی۔ لہذا پہاڑ اور پرندے آپ کے ساتھ تسبیح کرتے۔ اس کی نظیر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبَّه لِلْجَبَل. جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ میں عقل و فہم پیدا فرما دیا پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے دیدار رکھ دیا، یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔
دوسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کو اتنی اونچی اور خوبصورت آواز دی تھی کہ تمام پہاڑوں کے ساتھ وہ سریلی بلند آواز گونجتی تھی۔ اس سریلی آواز پر چرند پرند بھی جمع ہو جاتے اور نغمات لاہوتی کا رنگ ہر چیز پر جم جاتا اور ساری کائنات آپ کی ہمنوا ہوجاتی۔
تیسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں کم ہی کسی کو اتنی خوبصورت سریلی آواز دی ہوگی۔ جب زبور پڑھتے تو وحشی جانور بلا جھجک آپ کے پاس جمع ہوجاتے یہاں تک کہ آپ ان کو گردنوں سے پکڑ لیتے۔
چوتھی صورت یہ کہ اللہ پاک نے پہاڑ آپ کے ساتھ مسخر کر دیئے اور داؤد علیہ السلام جہاں جانا چاہتے پہاڑ آپ کے ہمراہ چلتے۔
(الامام الرازی، تفسیر کبیر ج26۔ 185 )
2۔ امام قرطبی، الجامع لاحکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ
کان داؤد يمر بالجبال مسجا والجبال تجاور بالتسبيح وکذلک الطير وقيل کان داؤد اذا وجد فترة امرالجبال فسبحت حتی يشتاق ولهذا قال (وسخرنا) ای جعلنا ها بحيث تطيعه اذا امرها بالتسبيح وقيل ان سيرها معه تسبحيها….. وکل محتمل.
’’داؤد علیہ السلام پہاڑوں سے تسبیح و تقدیس کرتے گذرتے تو پہاڑ جواب میں تسبیح کرتے، یونہی (پرندے) اور کہا گیا ہے جب داؤد علیہ السلام اُدھر سے رابطہ میں انقطاع محسوس کرتے، پہاڑوں کو تسبیح و تقدیس (ذکر محبوب) کا حکم دیتے۔ وہ تسبیح کرتے یہاں تک ذوق و شوق کی لذت سے بہرہ ور ہوتے، اسی لئے فرمایا ہم نے پہاڑوں کو اس کے لئے مسخر کردیا یوں کہ وہ آپ کی اطاعت کرتے جب بھی آپ ان کو تسبیح کا حکم کرتے اور کہا گیا ہے کہ پہاڑوں، پرندوں اور درندوں کا آپ کے ساتھ چلنا ہی ان کی تسبیح تھی اور یہ سب احتمالات ممکن ہیں‘‘۔
(ابوعبدالله محمد بن احمد انصاری القرطبی. الجامع لاحکام القرآن ج 11. ص 212)
احادیث مبارکہ کی روشنی میں
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور علیہ السلام ایک غزوہ سے لوٹے، ایک سانولے رنگ کی لڑکی حاضر خدمت ہوئی۔ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ پاک آپ کو بحفاظت واپس لایا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی۔ فرمایا :
ان کنت نذرت فافعلی والا فلا قالت انی کنت نذرت.
’’اگر تو نے نذر مانی تھی تو پوری کر، ورنہ رہنے دے۔ اس نے عرض کی میں نے نذر مانی تھی‘‘۔
فعقد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور اس لڑکی نے دف بجایا۔
(امام احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج 5، ص 356 طبع بیروت)
علامہ ابنِ منظور افریقی، لسان العرب میں غناء (گانا) کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
کل من رفع صوته و والاه فصوته عندالعرب غناء…
’’اونچی اور اچھی آواز سے مسلسل گانا عربوں کے ہاں غناء یعنی گانا ہے‘‘۔
(علامہ ابن منظور افریقی ’’لسان العرب‘‘ ج 10/135 طبع بیروت)
٭ امام بخاری ’’باب الشعر فی المسجد‘‘ میں مشہور حدیث لائے ہیں۔
يا حسان اجب عن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم. اللهم ايده بروح القدس.
’’حسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے گستاخ، شعراء کو جواب دو۔ اے اللہ اس (حسان) کی مدد فرما روح القدس (جبریل علیہ السلام) کے ذریعہ‘‘۔
شارح بخاری علامہ بدارلدین عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کی شرح میں فرماتے ہیں :
ان الشعرا المشتمل علی الحق مقبول بدليل دعاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم لحسان علی شعره فاذا کان کذلک لا يمنع فی المسجد کسائر الکلام المقبول.
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج 4۔ 217 طبع کوئٹہ)
’’وہ شعر جو حق پر مشتمل ہو مقبول ہے۔ اس دلیل سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان کو ان کی شاعری پر دعا فرمائی۔ جب حقیقت یہ ہے کہ جس طرح باقی کلام مقبول مسجد میں منع نہیں شعر بھی منع نہیں‘‘۔
علامہ عینی مزید فرماتے ہیں : ’’اس میں دلیل ہے کہ سچا شعر مسجد میں سننا، سنانا حرام نہیں، حرام وہ ہے جس میں بیہودگی اور جھوٹ ہو اور وہ اخلاق سے گرا ہوا ہو۔ اس کی دلیل سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس کو امام ترمذی نے اپنی تائید و تصحیح کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لئے مسجد میں منبر بچھایا کرتے جس پر کھڑے ہوکر وہ کفار کی ہجو کرتے تھے‘‘۔
ابو نعیم اصبہانی نے کتاب المساجد میں لکھا ہے کہ دور جاہلیت کے گندے اور باطل اشعار مساجد (یا کسی بھی جگہ) ممنوع ہیں۔ رہے اسلامی اور حقیقت پر مبنی اشعار ان کی اجازت ہے، وہ ممنوع نہیں۔ امام شعبی، عامر بن سعد، محمد بن سیرین، سعید بن المسیب، القاسم، الثوری، الاوزاعی، ابوحنیفہ، مالک، شافعی، احمد، ابو یوسف، محمد، اسحق، ابو ثور، ابو عبید رضی اللہ عنہم نے کہا، اس شعر کے پڑھنے گانے میں کوئی حرج نہیں جس میں کسی کی ناحق ہجو نہ ہو۔ کسی مسلمان کی عزت کو پامال نہ کیا جائے۔ جس میں فحاشی نہ ہو۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری للعینی ج 4۔ 219)
٭ سیدہ ربیع بنت معوذ بن عضراء سے روایت ہے میری شادی کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے۔۔۔ لڑکیوں نے دف بجانا شروع کر دیا اور غزوہ بدر میں شہید ہونے والے میرے بزرگوں کے محاسن بیان کرنے لگے۔ ایک لڑکی نے یہ مصرع گایا۔
وفينا نبی يعلم ما فی غد.
’’ہم میں وہ نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔ فرمایا اسے چھوڑ اور جو گا رہی تھی وہی گاؤ‘‘۔ (بخاری)
اس سے دف بجانا اور گانا گانا مسنون معلوم ہوا۔
٭ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ایک عورت کی ایک انصاری سے شادی ہو رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ماکان معکم لهو فان الانصار يعجبهم اللهو.
’’تمہارے ہمراہ کوئی کھیل تماشا نہیں، انصار کو کھیل تماشا پسند ہے‘‘۔ (بخاری)
٭ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اعلنوا هذا النکاح واجعلوه فی المساجد واضربوا عليه بالدفوف.
’’اس نکاح کا اعلان کرو، اسے مسجد میں کرو اور اس پر (مسجد کے باہر) ڈھول دف بجاؤ‘‘۔ (ترمذی)
٭ حضرت محمد بن حاطب الجمعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
فصل مابين الحلال والحرام الصوت والدف فی النکاح.
’’حلال اور حرام (نکاح و زناء) کے درمیان فرق آواز (گانا) اور دف بجانا ہے‘‘۔ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
نکاح میں گانے بھی ہوتے ہیں، دف بھی بجتے ہیں تاکہ خوشی کا اظہار بھی ہو اور ہر ایک کو شادی و نکاح کا پتہ بھی چل جائے جبکہ بدکاری چھپ چھپا کر ہوتی ہے تاکہ کسی کو پتہ نہ چل جائے۔ ان چیزوں کو نادانی سے حرام سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ پیارے آقا علیہ السلام کی سنتیں اور شرعی احکام ہیں۔ علماء کہلانے والوں کو کبھی غور کرنا چاہئے اور کتب حدیث میں کتاب النکاح ضرور پڑھنی چاہئے۔
شب کو روز و روز کو شب تار جو چاہے کرے
تو نے جو چاہا کیا اے یار! جو چاہے کرے
تو نے جو چاہا کیا اے یار! جو چاہے کرے
فحاشی پھیلانے والے اسباب
جو چیز بھی انسان کو نماز، روزہ، والدین کی خدمت، بیوی بچوں کی ضروریات، رزق حلال کمانے سے غافل کریں۔ آدمی اپنے فرائض بجا لانے میں سست ہو، اُن اعمال سے پرہیز ضروری ہے۔ بوڑھے والدین کو ہمہ وقت کھانے پینے میں، دوا و غذا میں، صحت و تفریح میں اولاد کی ضرورت ہے، اسی طرح بعض اوقات دنیاوی مصروفیات یا ذوق و شوق کی بہتات کی وجہ سے بیوی، خاوند کا منہ اور بچے باپ کا منہ دیکھنے کو ترستے ہیں، کاروبار تباہ ہو رہا ہے، بے عملی و بدعملی کا غلبہ ہو رہا ہے، جوڑنے والے رشتے منقطع ہو رہے ہیں، قوم و ملک پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ خداداد صلاحیتیں زنگ آلود ہو رہی ہیں، قیمتی زندگی ضائع ہورہی ہے۔ ان تمام خرابیوں کی بنیاد نام نہاد رہبانیت و ریاضت ہو، سیاست و تصوف ہو، یا کثرت عبادت ہو، گانا بجانا ہو یا قوالی ہو، واجب الترک ہے۔ اس سے پرہیز ضروری ہے۔ کھاؤ، پیو مگر حد سے نہ بڑھو، کام کرو اور آرام بھی۔ مسجد میں بھی جاؤ کھیت و کھلیان میں بھی۔ منڈی و بازار میں بھی، مکتب و جامعہ میں بھی اور دفتر و کچہری میں بھی مگر توازن نہ ٹوٹے۔ حد اعتدال پر رہو۔
٭ ابن جریح کہتے ہیں میں نے عطاء سے کہا سُر سے قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ انہوں نے کہا اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام ياخذ المعزفة فيعزف بها عليه يردد عليه صوته.
’’ساز لے کر بجاتے اور ان پر آواز دہراتے۔
(الحافظ الکبیر ابوبکر عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی ولادت 126ھ/ م 211ھ المصنف ج 2، ص 481)
٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مااذن الله لنبی ما اذن لنبی ان يتغنی بالقرآن.
’’کسی نبی کو اللہ تعالیٰ اتنی اجازت نہیں جتنی اپنے نبی کو ترنم سے قرآن پڑھنے کی اجازت دی ہے‘‘۔
(ایضاً ص 483)
٭ حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَتَغَنَّ بالقرآن.
’’وہ ہم میں سے نہیں جس نے قرآن کریم سُر سے نہ پڑھا‘‘۔ (ایضاً)
٭ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رات کے وقت سورہ بقرہ پڑھ رہے تھے :
وفرسه مربوطة عنده اذ جالت الفرس فسکت فسکنت فقرا فجالت فسکت فکسنت ثم قرا فجالت الفرس فانصرف وکان ابنه يحيیٰ قريبا منها فاشفق ان تصيبه ولما اخره رفع رأسه الی السمآء فاذا مثله انطله فيها مثل المصابيح فلما اصبح حدث النبی صلی الله عليه وآله وسلم فقال اقرا يا ابن حضير اقرا يا ابن حضير قال فاشفقت يارسول الله ان تطأ يحيیٰ وکان منها قريبا فانصرفت اليه ورفعت راسی الی السمآء فاذا مثل انظلّه فيها امثال المصابيح فخرجت حتی لا اراها قال وتدری ماذاک قال لا قال تلک الملئکة دنت لصوتک ولو قرات لاصبحت ينظر الناس اليها لا تتواری منهم.
’’ان کا گھوڑا پاس ہی بندھا ہوا تھا، اچانک گھوڑا رقص کرنے لگا آپ نے تلاوت بند کردی، گھوڑا پرسکون ہوگیا۔ پھر تلاوت شروع ہوئی، گھوڑا وجد کرنے لگا اور یہ چپ ہوگئے پھر قرآن پڑھنے لگے، گھوڑا وجد میں آگیا، یہ چپ ہوگئے، ان کے بیٹے یحییٰ گھوڑے کے قریب تھے یہ گھبرائے کہ گھوڑا اسے تکلیف نہ پہنچائے۔ تلاوت مکمل کرکے آسمان کی طرف دیکھا تو جیسے بادل کا سائبان ہو جس میں چراغ روشن ہوں۔ صبح تمام بات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنادی۔ فرمایا حضیر پڑھا کرو، حضیر پڑھا کرو۔ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گھبرا گیا کہیں یحییٰ کو لتاڑ نہ دے۔ جو گھوڑے کے قریب تھا میں اس کی طرف لوٹ گیا اور میں سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو جیسے بادل کا سائبان ہو جس میں چراغ ہوں، سو میں باہر نکل گیا کہ وہ نظر نہ آئے۔ فرمایا جانتے ہو وہ کیا تھا؟ بولے نہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! فرمایا تیری آواز سن کر فرشتے آگئے تھے۔ اگر تم پڑھتے رہتے تو صبح لوگ اسے دیکھتے اور کوئی چیز ان سے چھپی نہ رہتی‘‘۔ (متفق علیہ)
٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب سورہ کہف کی تلاوت کر رہے تھے، ان کے پاس ایک عمدہ گھوڑا دو مضبوط رسوں سے بندھا ہوا تھا، بادل اس پر چھا گیا اور اس سے قریب اور مزید قریب ہونے لگا۔ ان کا گھوڑا اچھلنے کودنے لگا۔ صبح سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں سب معاملہ بیان کر دیا سرکار نے فرمایا :
تلک سکينة تنزلت بالقرآن.
’’یہ قرآن پاک کے سبب رحمت و تسکین نازل ہورہی تھی‘‘۔ (متفق علیہ)
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما اذن الله لشئی مااذن لنبی حسن الصوت بالقرآن يجهر به.
’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچھی آواز کے ساتھ اونچی آواز سے جیسے قرآن پڑھنے کا حکم دیا کسی اور چیز کو اچھے لہجہ میں بآواز بلند اس طرح پڑھنے کا حکم نہیں دیا‘‘۔ (متفق علیہ)
٭ انہی سے یہ روایت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ليس منا من لم يتغن بالقرآن.
’’جس نے قرآن کریم لے اور سُر سے نہیں پڑھا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ (عبدالرزاق المصنف2/483)
٭ حضرت براّ بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
زينوا القرآن باصواتکم.
’’قرآن کریم کو اپنی آواز سے مزین و خوبصورت کرو‘‘۔ (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی)
٭ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے :
حسنوا القرآن باصواتکم فان الصوت الحسن يزيد القرآن حسنا.
’’اپنی آوازوں سے قرآن کو حسین بناؤ کہ اچھی آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کرتی ہے‘‘۔ (دارمی)
(جاری ہے)
تحریک کے عظیم رہنما محترم محمد اشرف اوپل کا انتقال
ناظم منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈنمارک محمد بلال اوپل کے والد گرامی اور تحریک منہاج القرآن کے دیرینہ رہنماء محمد اشرف اوپل مورخہ 16 اپریل 2009ء کو ڈنمارک میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مورخہ 19 اپریل 2009ء بروز اتوار بعد نماز عصر مرحوم کی نماز جنازہ جامع مسجد منہاج القرآن، لاہور (پاکستان) کے سامنے ادا کی گئی۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی امیر تحریک صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اس موقع پر تحریک منہاج القرآن کے مرکزی قائدین، منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈنمارک کے عہدیداران اور سٹاف ممبران و کارکنان نے شرکت کی۔
محمد اشرف اوپل صاحب کا شمار منہاج القرآن انٹرنیشنل ڈنمارک کے بانی اراکین اور سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ آپ کی مصطفوی مشن کی ترویج و اشاعت اور دیار کفر میں اشاعت اسلام کے لئے کی جانے والی خدمات قابل تعریف ہیں۔ انہی شاندار خدمات کی وجہ سے ان کی تدفین روضۃ المخلصین میں کی گئی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے محترم محمد اشرف اوپل کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ مرحوم سچے عاشق رسول تھے اور تحریک منہاج القرآن کا سرمایہ تھے ۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کے لئے وقف کر رکھی تھی اور اسلام کے لئے شاندار خدمات سرانجام دیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ جملہ مرکزی قائدین اور سٹاف ممبران محترم اشرف اوپل صاحب کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے صدقے جوار رحمت میں جگہ عطا کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
—
الفقہ : سُر، ساز اور وجد و رقص (آخری حصہ)
مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی
آج کے دور میں قرآن و حدیث سے ناآشنا لوگ اور احکامات کی علت و وجوہ سے نابلد احباب کئی جائز چیزوں پر بھی فوراً ناجائز اور حرام کا حکم لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ میں موجود متعلقہ موضوع کے حوالے سے اثبات پر مبنی احادیث سے بھی عمداً چشم پوشی کرتے ہیں۔ وہ موضوعات جو اکثر ان احباب کے فتوؤں کی زد میں رہتے ہیں اُن میں سے ایک موضوع سُر، ساز، موسیقی اور وجد و رقص بھی ہے۔ کچھ شرائط اور علل کی بناء پر سُر، ساز اور موسیقی جائز ٹھہرتی ہے اور اگر وہ شرائط و وجوہات نہ پائی جائیں تو یہ موسیقی ناجائز ہے۔ محترم مفتی صاحب نے اپنے اس تفصیلی مضمون میں جن موضوعات پر مدلل جوابات دیئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں مثلاً سُر، ساز اور وجد و رقص کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں۔ ۔ ۔؟ کیا موسیقی کا سننا جائز ہے۔ ۔ ۔؟ بعض اوقات سُر اور ساز سے لوگوں پر جذب کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ وجد و رقص کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس بارے شریعت کے کیا احکامات ہیں۔ ۔ ۔؟ اسی طرح آج کل دف اور موسیقی کے ساتھ نعت بھی پڑھنے کا رواج عام ہے کیا سُر، ساز اور موسیقی کے ساتھ نعت شریف کا پڑھنا جائز ہے۔ ۔ ۔؟ اور اس طرح کے کئی سوالات اور دیگر کئی موضوعات کے متعلق اصولی وفنی معلومات قرآن و احادیث کی روشنی میں بیان کیں۔ اس مضمون کے پہلے اور دوسرے حصے (اشاعت مجلہ ماہ مئی، جون 09ء) میں متعدد قرآنی آیات و احادیث کی روشنی میں سُر، ساز، موسیقی، شعرو شاعری اور وجد و رقص پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ اس مضمون کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے :
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے لعبت الحبشه بحرابهم فرحا لقدومه تو حبشیوں نے سرکار کی آمد کی خوشی میں نیزہ بازی کا کھیل کھیلا‘‘۔ (ابوداؤد)
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
ان ابا بکر دخل عليها وعندها جاريتان فی ايام منی تغنيان تدفغان وتضربان والنبی صلی الله عليه وآله وسلم متغش بثوبه فانتهرهما ابو بکر فکشف النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن وجهه فقال دعهما يا ابا بکر فانها ايام عيد وتلک الايام ايام منی.
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے پاس ایام منی میں تشریف لائے، اُس وقت میرے پاس دو بچیاں بیٹھی تھیں جو کچھ گارہی تھیں اور د ف بجا رہی تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چہرہ پر کپڑا ڈالے آرام فرما تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں بچیوں کو گانے اور دف بجانے سے منع فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کو چھوڑ دو یہ عید کے ایام ہیں۔
وقالت عائشة رايت النبی صلی الله عليه وآله وسلم يسترنی وانا انظر الی الحبشة وهم يلعبون فی المسجد فزجرهم عمر فقال النبی صلی الله عليه وآله وسلم دعهم امنا بنی ارفدة.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنی چادر میں چھپایا اور میں نے حبشیوں کو دیکھا جو مسجد میں نیزہ بازی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں روکا تو آپ نے فرمایا : ان کو چھوڑ دے یہ بنی ارفدہ ہے۔
علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن العینی رحمۃ اللہ علیہ (م 855 ھ) شرح میں لکھتے ہیں کہ ان احادیث مبارکہ سے ایک بات یہ ثابت ہوئی کہ شارع علیہ السلام کے سامنے خوشی کے موقع پر دف بجایا، گانا گایا اور کھیل کھیلا گیا۔ یعنی جو حلال و حرام کو بیان فرمانے والے ہیں اُن کے سامنے یہ امور بجا لائے گئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع نہ فرمایا۔ اسی طرح دف بجا کر اور جائز و مباح گانا گا کر اعلان نکاح کیا گیا تاکہ نکاح اور چھپ چھپا کر بدکاری کرنے میں فرق ہو جائے۔
٭ امام ترمذی نے سیدنا محمد بن حاطب الجمعی رضی اللہ عنہ کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے :
فصل مابين الحلال والحرام الدف والصوت.
’’حلال اور حرام میں فرق دف بجانا اور گانا ہے‘‘۔
ترمذی نے اسے حدیث حسن، ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔
٭ ترمذی نے ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے :
اعلنوا هذا النکاح واجلعوه فی المساجد وقال واضربوا عليه بالغربال.
’’اس نکاح کا اعلان کیا کرو اور یہ مسجدوں میں کیا کرو اور اس پر دف بجایا کرو‘‘۔
٭ نسائی نے سیدنا قرظۃ بن کعب اور سیدنا ابو مسعود کی یہ روایت نقل کی ہے، دونوں فرماتے ہیں :
رخص لنا فی اللهو عندالعرس.
’’شادی کے موقع پر ہمیں کھیل کود کی رخصت دی گئی‘‘۔
٭ طبرانی نے حضرت السائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لڑکیوں سے ملے جو کچھ اس طرح سے گا رہی تھیں۔
حَيُّوْنَا نحَيّکُمْ.
’’تم ہمیں زندہ کرو! ہم تمہیں زندہ کریں گی‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یوں نہ کہو، بلکہ یوں کہو حَيَّانَا وَحَيَّاکُمْ ’’اللہ ہمیں سلامت رکھے اور تمہیں سلامت رکھے۔ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ہمیں اس کی اجازت دیتے ہیں؟ فرمایا ہاں اِنَّه نِکَاحٌ لَا سَفَاحٌ. ’’یہ نکاح ہے بدکاری نہیں‘‘۔
٭ ابن ماجہ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ
انها انکحت ذات قرابة لها من الانصار.
’’انہوں نے اپنی ایک انصاری عزیزہ کا نکاح کیا‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے لڑکی دلہن بنا دی؟ عرض کی جی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فرمایا : ارسلتم معها من یغنی ’’اس کے ساتھ کوئی گانے والا بھیجا؟، میں نے عرض کی : نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار کے لوگوں میں گانے پسند کئے جاتے ہیں۔ اگر تم اس کے ہمراہ کوئی ایسا بھیجتے جو کہتا اَتيْنَاکُمْ اتينَاکُمْ فَحَيّانَا وَحَيَّاکُمْ ’’ہم تمہارے پاس آئے، تمہارے پاس آئے، اللہ پاک، ہمیں بھی سلامت رکھے تمہیں بھی سلامت رکھے‘‘۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج 20، ص 136 )
حبشیوں کا طرزِ عمل
ان الحبشة تذفن بين يدی النبی صلی الله عليه وآله وسلم ويتکلمون بکلام لهم، فقال مايقولون؟ قال يقولون مَحَمَّدٌ عَبْدٌ صَالِح.
’’حبشی، رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وجد و رقص (بھنگڑا) کرتے تھے اور اپنی زبان میں کچھ کہتے تھے۔ پوچھا کیا کہتے تھے؟ کہا : یہ کہتے تھے محمد (اللہ) کے نیک بندہ ہیں‘‘۔
(علامہ عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ج 6۔ ص 270 طبع کوئٹہ)
1. علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
ولا شک ان يوم قدومه صلی الله عليه وآله وسلم کان عندهم اعظم من يوم العيد.
’’بے شک سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی (مدینہ منورہ میں) تشریف آوری ان کے نزدیک عید کے دن سے بڑھ کر خوشی تھی‘‘۔ (ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، شرح صحیح بخاری ج 2، ص 443)
2. فقام النبی صلی الله عليه وآله وسلم فاذا حبشية تزفن ای ترقص والصبيان حولها فقال يا عائشة تعالی فانظري.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آواز سن کر، کھڑے ہوئے، دیکھا ایک حبشیہ رقص کررہی ہے اور اس کے آس پاس بچے جمع ہیں۔ فرمایا عائشہ! آکر دیکھیں۔ ۔ ۔ ان کی زبان پر اس دن یہ بول تھے۔ اباالقاسم طیبا۔
3. امام احمد، السراج اور ابن حبان نے حضرت انس کی روایت بیان کی۔
ان الحبشة کانت تزفن بين يدی النبی صلی الله عليه وآله وسلم و يتکلمون بکلام لهم فقال مايقولون؟
حبشی لوگ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رقص کرتے تھے اور اپنی زبان میں کچھ کہتے تھے پوچھا کیا کہہ رہے تھے؟ کہا اس دن ان کے کلام میں یہ شعر بھی تھا :
محمد عبد صالح. محمد بہت اچھے بندے ہیں۔
اَبَاالْقَاسِم طَيِّبًا ’’اے ابوالقاسم آپ بہت ستھرے ہیں‘‘۔ (ابن حجر عسقلانی ج 2، ص 444)
ساز اور آواز فقہائے کرام کے نزدیک
ردالمختار میں ہے کہ
عرفنا من هذا ان التغنی المحرم ما کان فی اللفظ مالا يحل کصفة الذکور والمراة المعينة الحية ووصف الخمرالمهيج اليها والحانات والهجاء لمسلم او ذمی اذا ارادالمتکلم هجاه لا اذا ارادانشاده الاشهاد به اوليعلم فصاحته وبلاغته وکان فيه وصف امراة ليست کذلک اوالزهريات المتضمنه وصف الرياحين والازهار والمياه فلا وجه لمنعه علی هذا.
’’اس سے ہم کو معلوم ہوا کہ حرام وہ گانا ہے جس کے الفاظ حرام ہوں جیسے کسی معین زندہ مرد یا عورت کی صفت بیان کرنا یا اس کی طرف جوش دلانے والے شراب کا ذکر کرنا یا بے ڈھنکی سریں ہو۔ کسی مسلمان یا ذمی کی دانستہ برائی بیان کی جائے۔ وہ شعر حرام نہیں جس سے مقصد کسی مفہوم کی وضاحت ہو یا فصاحت و بلاغت کی مثال۔ کسی غیر معینہ عورت کی تعریف کی جائے یا کلیاں جن سے پھول پتیاں بنتی ہیں یا پانی (دریا، چشمے، ندی نالے وغیرہ) شعر و شاعری میں ان چیزوں کا بیان منع نہیں۔ ۔ ۔ اور جن صوفیاء نے گانے قوالی وغیرہ کو جائز قرار دیا ہے وہ ان لوگوں کے لئے ہے جو کھیل کود سے خالی اور تقوی کے زیور سے مزین ہوں نیز جنہیں گانے قوالی کی ایسی مجبوری ہو جیسے مریض کو دواء کی‘‘۔
گانے کے جواز کے لئے چھ شرائط
1۔ محفل میں کوئی بے ریش نہ ہو، تمام مجمع ایک جنس سے ہو۔
2۔ قوال کی نیت اخلاص ہو، کھانا اور پیسے بٹورنا نہ ہو۔
3۔ محض کھانے اور نذرانوں کے لئے اجتماع نہ ہو۔
5۔ صرف شدید وجد کی حالت میں کھڑے ہوں۔
6۔ وجد و رقص کے اظہار میں سچے ہوں۔
2۔ قوال کی نیت اخلاص ہو، کھانا اور پیسے بٹورنا نہ ہو۔
3۔ محض کھانے اور نذرانوں کے لئے اجتماع نہ ہو۔
5۔ صرف شدید وجد کی حالت میں کھڑے ہوں۔
6۔ وجد و رقص کے اظہار میں سچے ہوں۔
فتاویٰ تاثیر خانہ میں ہے کہ اشعار میں اگر فسق و فجور کا ذکر نہ ہو، نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کا ذکر نہ ہو، وغیرہ تو گانا مکروہ نہیں۔
فتاویٰ ظہیریہ میں ہے کہ شعر و شاعری اور گانے میں مکروہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذکر اور قرآن پڑھنے سے غافل ہو جائے اگر یہ وجہ نہ ہو تو شعر گانے میں کوئی حرج نہیں۔
’’تبیین المحارم‘‘ کتاب میں ہے کہ ’’جان لیجئے کہ حرام وہ شعر ہے جس میں فحش یا مسلمان کی برائی بیان کی جائے یا اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹ باندھا جائے یا اپنے پاک صاف ہونے کے دعوے ہوں، یا جھوٹ ہو یا مذموم تفاخر ہو۔ یا کسی کے نسب کی برائی ہو یا کسی معین عورت یا بے ریش لڑکے کی تعریف کی جائے جبکہ وہ دونوں زندہ ہوں، یہ سب ناجائز ہے۔ ہاں اگر عورت فوت شدہ ہے یا غیر معین ہے تو اس کی تعریف کرنا درست ہے۔
بے شک آلہ لہو (ڈھول، باجا، بینڈ، بانسری وغیرہ) اپنی ذات میں حرام نہیں۔ ۔ تم دیکھتے نہیں کہ وہی آلہ موسیقی کبھی بجانا جائز و حلال اور دوسرے موقع پر حرام ہو جاتا ہے۔ نیت و مقاصد بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ یہی صورت سماع کی ہے۔ اس میں ہمارے سادات صوفیہ کے لئے دلیل ہے۔ ان کے پیش نظر بڑے پاکیزہ مقاصد ہوتے ہیں جن کو وہی بہتر جانتے ہیں۔ لہذا معترض انکار کی جلد بازی نہ کرے تاکہ ان کی برکت سے محروم نہ ہو۔ یہ اولیاء اللہ ہمارے بزرگوار، نیکو کار ہیں۔ اللہ پاک ہم کو ان کی مدد نصیب فرمائے اور ان کی مقبول دعائیں، برکتیں ہم پر بار بار فرماتا رہے۔
(علامہ امین اشہیر ابن عابدین م 1252ھ شامی ردالمختار ج 6 ص 350 طبع کراچی)
1. ولا بائس ان يکون ليلة العرس دف يضرب به ليعلن به النکاح. . وان کان للغزواة والقافلة يحوز.
’’شادی کی رات دف بجانے میں حرج نہیں تاکہ اس کے ذریعے نکاح کا اعلان ہو اور اگر جہاد کے لئے ہو یا قافلہ کے لئے تو جائز ہے‘‘۔ (شامی ج 6۔ 55 طبع کراچی)
2. محدث ابو عوانہ رحمۃ اللہ نے اپنی صحیح میں یہ اضافہ کیا ہے کہ حبشی بنی ارفدہ کہلاتے ہیں، مطلب یہ کہ یہ ان کا حال اور طریقہ ہے۔ وهو من الامور المباحة فلا انکار عليهم. یہ جائز امور میں سے ہے پس ان پر انکار نہ کیا جائے۔
3. امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ بیاہ شادی کے علاوہ آپ دف بجانے کو مکروہ سمجھتے ہیں؟ مثلا! عورت یا بچہ گھر میں دف بجائے، انہوں نے کہا کوئی کراہت نہیں۔
4. فوائد الحدیث میں تیسرا فائدہ کے ضمن میں علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فيه جواز نظر النسآء والی فعل الرجال الاجانب لانه انما يکره لهن النظر الی المحاسن والاستلذاذ بذلک ونظرالمراة الی وجه الرجل الاجنبی ان کان بشهوة فحرام اتفاقا.
’’اس حدیث سے عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنے کا جواز ملتا ہے اس لئے کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنا صرف اس صورت میں مکروہ ہے جب وہ ان کے حسن و جمال پر نظر رکھیں اور اس سے لذت اندوز ہوں۔ عورت کا اجنبی مرد کے چہرے کو شہوت کی نیت سے دیکھنا ہو تو بالاتفاق حرام ہے۔ وان کان بغیر شہوۃ فالاصح عدم التحریم اور اگر یہ دیکھنا شہوت کے بغیر ہو تو صحیح تر یہی ہے کہ یہ حرام نہیں۔
(علامہ عینی عمدۃ القادری شرح بخاری ج 6 طبع کوئٹہ)
(کتاب میں کتابت کی غلطی سے عدم التحریم کی جگہ التحریم لکھا گیا ہے جو سیاق و سباق کی رو سے درست نہیں۔ ہزاروی)
تسامحات
بعض حضرات نے کہا یہ واقعات قُلْ لِلْمُوْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ. مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں۔ (النور 24، 31) کے نزول سے پہلے کے ہیں یا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بالغ ہونے سے پہلے کے ہیں۔ یہ بات درست نہیں کیونکہ ابن حبان کی روایت میں ہے کہ یہ واقعہ وفد حبشہ کی مدینہ منورہ میں آمد کے وقت ہوا اور وفد حبشہ 7ھ میں مدینہ منورہ آیا تھا اور اس وقت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک پندرہ سال تھی۔ ۔ ۔
1. پانچویں فائدہ میں لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا عیدوں کے مواقع پر خوشی کا اظہار شعائر دین میں سے ہے۔
2. نویں فائدہ کے ضمن میں لکھتے ہیں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکو کاروں کے ڈیرے کھیل کود سے پاک ہوتے ہیں، اگرچہ اس میں گناہ نہ ہو، ہاں ان کی اجازت سے کھیل کود کی اجازت ہے۔ ۔ ۔
3. بارہویں فائدہ کے ضمن میں لکھتے ہیں اس میں لڑکی کی گانے کی آواز سننا جائز ثابت ہوتا ہے اگرچہ باندی مملوکہ نہ ہو کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گانا سننے پر انکار نہیں فرمایا بلکہ ان کے انکار پر انکار فرمایا اور لڑکیاں برابر گاتی رہیں تاآنکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نکلنے کا اشارہ فرمایا۔
4. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک اعرابی کو گانے کی اجازت دی تھی جسے حداء (حدی) کہا جاتا ہے۔ ابن حزم نے کہا گانا، کھیل کود اور وجد و رقص مسجد وغیرہ میں عیدین کے موقع پر اچھی بات ہے۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج 6 ص 272 طبع کوئٹہ)
5. خطابی نے کہا کہ ایک دو شعر ترنم سے گانا اور سُر لگانا جس میں فحش یا ممنوع باتوں کا ذکر نہ ہو، جائز ہے اور تھوڑے کا حکم زیادہ کے خلاف ہے۔ (ص 274 ایضاً)
6. حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ہم رسول اللہ کی خدمت اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے۔
فکانوا يتناشدون الاشعار ويتذاکرون اشياء من امر الجاهلية ورسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ساکت فربما تبسم. (مسند احمد ج 5 ص 105 طبع بيروت)
’’صحابہ کرام شعر و شاعری پر مذاکرہ کرتے (گانا گاتے) اور دور جاہلیت کی باتیں سنتے سناتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموشی سے سنتے اور بسا اوقات مسکراتے‘‘۔
اہل تصوف نے کچھ پہلے بزرگوں کے احوال و اعمال کو دیکھتے ہوئے گانا اور رقص و وجد جائز قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ ان بزرگوں کے زمانہ میں کوئی ایک شعر پڑھتا جو ان کے موافق حال ہوتا تو یہ اس سے موافقت کرتے اور نرم دل آدمی جب اپنے حسب حال کلمہ سنتا ہے تو بسا اوقات اس کے عقل پر مدہوشی غالب آجاتی ہے اور غیر اختیاری طور پر کھڑا ہو جاتا ہے اور اس سے غیر اختیاری طور پر حرکات صادر ہوتی ہیں۔ یہ جائز ہے اس میں مواخذہ نہیں اور یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ مشائخ کا عمل ہمارے زمانہ کے اہل فسق و فجور کے عمل جیسا ہوگیا۔ جنہیں احکام شرع کا کوئی علم نہیں۔ دلیل جواز تو دیندار لوگوں سے پکڑی جاتی ہے۔ ۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ بیاہ شادی کے سواء دف بجانا مکروہ ہے؟ مثلاً عورت بچے کی خاطر، بغیر فسق دف بجائے، انہوں نے فرمایا : نہیں، ہاں جس سے بیہودہ اچھل کود ہو میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں۔
(فتاوی عالمگیری ج 5 ص 352 طبع کوئٹہ)
والمختاران ضرب الدف والاغانی التی ليس فيها ماينافی الاداب جائز بلا کراهة مالم يشتمل کل ذلک مفاسد کتبرج النسآء الاجنبيات فی العرس وتهتکهن امام الرجال والعريس ونحو ذلک. والاحرام.
’’مذہب مختار یہ ہے کہ دف اور ساز بجانا جس میں آداب کے خلاف کوئی بات نہ ہو، بلا کراہت جائز ہے جب تک یہ خرابیوں اور بیہودگیوں پر مشتمل نہ ہو (مثلاً بیاہ شادی کے مواقع پر اجنبی عورتوں کا بن ٹھن کا باہر نکلنا، مردوں اور باراتیوں کے سامنے پھُدکنا، مٹکنا وغیرہ) ورنہ حرام۔
(عبدالرحمن الجزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج 4 ص 8 طبع بیروت)
احناف کے نزدیک
ہر عمل جس پر برائی لازم آئے حرام ہے اگرچہ اپنی ذات میں اچھی ہو۔ گانا اس حیثیت سے کہ اس میں لہجے بدل بدل کر اچھی آواز نکالنا ہے تو یہ جائز ہے۔ اس میں ناجائز کوئی چیز نہیں۔ ہاں کبھی ا سکے ساتھ دوسری باتیں لگ کر مکروہ و حرام کردیتی ہیں۔ مثلاً ایسا گانا جس کے نتیجہ میں کسی غیر محرم عورت یا بے ریش لڑکے کا فتنہ پیدا ہو یا مثلاً جو بول شراب پینے پر ابھاریں یا وقت ضائع ہو، فرائض و واجبات کی ادائیگی میں رکاوٹ بن جائے تو حرام ورنہ جائز ہے۔ لہذا گانے میں ایسے الفاظ نہ ہوں جن میں کسی زندہ معینہ عورت کی توصیف ہو کہ یہ شہوت پیدا کرتی اور فتنہ کا باعث بنتی ہے۔ اگر عورت مرگئی ہے تو اس کی تعریف نقصان دہ نہیں کہ اس کی ملاقات کی آس نہیں، بے ریش لڑکے کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اسی طرح گانے میں ایسے الفاظ نہ ہوں جو شراب پینے، وقت ضائع کرنے اور ادائے واجبات میں رکاوٹ کا باعث ہوں۔ اگر یہ خرابیاں نہ ہوں تو گانا جائز ہے۔
(علامہ عبدالرحمن الجزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج 2 ص 42 طبع بیروت)
فرق ہے
ہمارے یہاں ہی نہیں تمام اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں خوشی کی تقریبات میں عورتیں، عورتوں کی محفل میں اور مرد سر عام بھنگڑا لڈی، خٹک ناچ اور دیگر علاقائی کھیل کھیلتے اور جذباتِ مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض لوگ بزرگوں کے عرسوں پر بھی اور میلوں ٹھیلوں، ثقافتی پروگراموں میں، تعلیمی و تربیتی اداروں میں بھی، پریڈ ورزش، ایکسر سائز کی صورت میں بھی، وجد و رقص کرتے ہیں یا ہو جاتا ہے، یہ سب کچھ اگر شرعی لباس میں ہو، عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے نہ کریں، گانے کے بول غیر شرعی و غیر اخلاقی نہ ہوں درج بالا عیبوں سے پاک ہوں، یہ پروگرام دیگر فرائض و احکام کی ادائیگی میں حائل نہ ہوں تو قرآن و سنت اور تصریحات ائمہ و فقہاء اور عقل سلیم کے نزدیک درست ہے، گانا بھی اور سننا سنانا بھی۔
Comments